اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگِ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصارِ آب میں
حاصل جہد مسلسل، مستقبل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں
تنگ کرتی ہے مکان میں خواہشِ سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں
اے منیر اب اس قدر خاموشیاں، یہ کیا ہوا
یہ صفت آئی کہاں سے پارہ سیماب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں
تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگِ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصارِ آب میں
حاصل جہد مسلسل، مستقبل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں
تنگ کرتی ہے مکان میں خواہشِ سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں
اے منیر اب اس قدر خاموشیاں، یہ کیا ہوا
یہ صفت آئی کہاں سے پارہ سیماب میں
No comments:
Post a Comment