<bgsound loop='infinite' src='http://picosong.com/3MQs.mp3'></bgsound> Rashid's Poetry: February 2013

Thursday, February 28, 2013

بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے

ہم کریں بات دلیلوں سے تو رد ہوتی ہے
اس کے ہونٹوں کی خموشی بھی سند ہوتی ہے

سانس لیتے ہوئے انساں بھی ہے لاشوں کی طرح
اب دھڑکتے ہوئے دل کی بھی لحد ہوتی ہے

اپنی آواز کے پتھر بھی نہ اس تک پہنچے
اس کی آنکھوں کے اشارے میں بھی زد ہوتی ہے

جس کی گردن میں ہے پھندا وہی انسان بڑا
سولیوں سے یہاں پیمائش قد ہوتی ہے

شعبدہ گر بھی پہنتے ہے خطیبوں کا لباس
بولتا جہل ہے بدنام خرد ہوتی ہے

کچھ نہ کہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزاز سخن
ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے

چل انشا اپنے گاوں میں

چل انشا اپنے گاوں میں
یہاں الجھے الجھے روپ بہت
پر اصلی کم بہروپ بہت
اس پیڑ کے نیچے کیا رکنا
جہاں سایا کم ھو دھوپ بہت
چل انشا اپنے گاوں میں
بیٹھیں گے سکھ کی چھاوں میں
کیوں تیری آنکھ سوالی ہے
یہاں ہر اک بات نرالی ہے
اس دیس بسیرا مت کرنا
 یہاں مفلس ھونا گالی ہے
چل انشا اپنے گاوں میں
جہاں سچے رشتے یاروں کے
جہاں وعدے پکے پیاروں کے
جہاں گھونگھٹ زیور ناروں کے
جہاں جھومیں کومل سر والے
جہاں ساز بجیں بن تاروں کے
کرے سجدہ وفا بھی پاوں میں
چل انشا اپنے گاوں میں

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور

لازم تھا کہ دیکھو مرا رستہ کوئی دِن اور
تنہا گئے کیوں؟ اب رہو تنہا کوئی دن اور

مٹ جائےگا سَر ،گر، ترا پتھر نہ گھِسے گا
ہوں در پہ ترے ناصیہ فرسا کوئی دن اور

آئے ہو کل اور آج ہی کہتے ہو کہ ’جاؤں؟
  مانا کہ ہمیشہ نہیں اچھا کوئی دن اور
 
جاتے ہوئے کہتے ہو ’قیامت کو ملیں گے
کیا خوب! قیامت کا ہے گویا کوئی دن اور
 
ہاں اے فلکِ پیر! جواں تھا ابھی عارف
کیا تیرا بگڑ تا جو نہ مرتا کوئی دن اور
 
تم ماہِ شبِ چار دہم تھے مرے گھر کے
پھر کیوں نہ رہا گھر کا وہ نقشا کوئی دن اور
 
تم کون سے ایسے تھے کھرے داد و ستد کے 
کرتا ملکُ الموت تقاضا کوئی دن اور
 
مجھ سے تمہیں نفرت سہی، نیر سے لڑائی
بچوں کا بھی دیکھا نہ تماشا کوئی دن اور
 
گزری نہ بہرحال یہ مدت خوش و ناخوش 
کرنا تھا جواں مرگ گزارا کوئی دن اور

ناداں ہو جو کہتے ہو کہ ’کیوں جیتے ہیں غالب
قسمت میں ہے مرنے کی تمنا کوئی دن اور

اے عشق جنوں پیشہ


اے عشق جنوں پیشہ

عمروں کی مسافت سے
تھک ہار گئے آخر

سب عہد اذیّت کے
بیکار گئے آخر

اغیار کی بانہوں میں
دلدار گئے آخر

رو کر تری قسمت کو
غمخوار گئے آخر

یوں زندگی گزرے گی
تا چند وفا کیشا

وہ وادیء الفت تھی
یا کوہِ الَم جو تھا

سب مدِّ مقابل تھے
خسرو تھا کہ جم جو تھا

ہر راہ میں ٹپکا ہے
خوننابہ بہم جو تھا

رستوں میں لُٹایا ہے
وہ بیش کہ کم جو تھا

نے رنجِ شکستِ دل
نے جان کا اندیشہ

۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

کچھ اہلِ ریا بھی تو
ہمراہ ہمارے تھے

رہرو تھے کہ رہزن تھے
جو روپ بھی دھارے تھے

کچھ سہل طلب بھی تھے
وہ بھی ہمیں پیارے تھے

اپنے تھے کہ بیگانے
ہم خوش تھے کہ سارے تھے

سو زخم تھے نَس نَس میں
گھائل تھے رگ و ریشہ
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔


جو جسم کا ایندھن تھا
گلنار کیا ہم نے

وہ زہر کہ امرت تھا
جی بھر کے پیا ہم نے

سو زخم ابھر آئے
جب دل کو سیا ہم نے

کیا کیا نہ مَحبّت کی
کیا کیا نہ جیا ہم نے

لو کوچ کیا گھر سے
لو جوگ لیا ہم نے

جو کچھ تھا دیا ہم نے
اور دل سے کہا ہم نے

رکنا نہیں درویشا
۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔

یوں ہے کہ سفر اپنا
تھا خواب نہ افسانہ

آنکھوں میں ابھی تک ہے
فردا کا پری خانہ

صد شکر سلامت ہے
پندارِ فقیرانہ

اس شہرِ خموشی میں
پھر نعرہء مستانہ

اے ہمّتِ مردانہ
صد خارہ و یک تیشہ

اے عشق جنوں پیشہ
اے عشق جنوں پیشہ

اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

تسکینِ دلِ محزوں نہ ہوئ وہ سعئِ کرم فرما بھی گئے
اس سعئِ کرم کا کیا کہیئے، بہلا بھی گئے تڑپا بھی گئے

اک عرضِ وفا کر بھی نہ سکے، کچھ کہہ نہ سکے کچھ سن نہ سکے
یہاں ھم نے زباں بھی نہ کھولی، وھاں آنکھ جھکی، شرما بھی گئے

آشفتگئِ وحشت کی قسم، حیرت کی قسم، حسرت کی قسم
اب آپ کہیں کچھ یا نہ کہیں ، ھم رازِ تبسم پا بھی گئے

روئدادِ غمِ الفت ان سے ھم کہتے، کیونکر کہتے
اک حرف نہ نکلا ہونٹوں سے اور آنکھ میں آنسو آ بھی گئے

اربابِ جنوں پہ فرقت میں اب کیا کہئے کیا کیا گزرا
آئے تھے سواد ِالفت میں، کچھ کھو بھی گئے، کچھ پا بھی گئے

یہ رنگِ بہارِ عالم ھے، کیا فکر تجھ کو اے ساقی
محفل تو تیری سونی نہ ہوئ، کچھ اٹھ بھی گئے کچھ آ بھی گئے

اس محفلِ کیف و مستی میں، اس انجمنِ عرفانی میں
سب جام بکف بیٹھے رہے، ھم پی بھی گئے، چھلکا بھی گئے

Ajnabi


Wednesday, February 27, 2013

Muhabbat to barish jesi hae


ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ ﺁﺯﻣﺎﻧﮯ ﺩﻭ

ﻣﺠﮭﮯ ﺧﺎﻣﻮﺵ ﺭﮨﻨﮯ ﺩﻭ
ﺳﻨﺎ ﮨﮯ ﻋﺸﻖ ﺳﭽﺎ ﮨﻮ
ﺗﻮ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﻟﮩﻮ ﺑﻦ ﮐﺮ
ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﺎﭺ ﺍﭨﮭﺘﯽ ﮨﮯ
ﺫﺭﺍ ﺍﺱ ﮐﯽ ﺭﮔﻮﮞ ﻣﯿﮟ
... ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﻮ ﺟﮭﻮﻡ ﺟﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ
ﺁﺯﻣﺎﻧﮯ ﺩﻭ
ﺍﺳﮯ ﻣﯿﮟ ﮐﯿﻮﮞ ﺑﺘﺎﺅﮞ ﻣﯿﮟ ﻧﮯ
ﺍﺱ ﮐﻮ ﮐﺘﻨﺎ ﭼﺎﮨﺎ ﮨﮯ
ﺑﺘﺎﯾﺎ ﺟﮭﻮﭦ ﺟﺎﺗﺎ ﮨﮯ
ﮐﮧ
ﺳﭽﯽ ﺑﺎﺕ ﮐﯽ ﺧﻮﺷﺒﻮ
ﺗﻮ ﺧﻮﺩ ﻣﺤﺴﻮﺱ ﮨﻮﺗﯽ ﮨﮯ
ﻣﯿﺮﯼ ﺑﺎﺗﯿﮟ ، ﻣﯿﺮﯼ ﺳﻮﭼﯿﮟ
ﺍﺳﮯ ﺧﻮﺩ ﺟﺎﻥ ﻟﯿﻨﮯ ﺩﻭ
ﺍﺑﮭﯽ ﮐﭽﮫ ﺩﻥ ﻣﺠﮭﮯ ﻣﯿﺮﯼ ﻣﺤﺒﺖ
ﺁﺯﻣﺎﻧﮯ ﺩﻭ

میں انتظار میں ہوں

یہ کیسا نشہ ہے، میں کس عجب خمار میں ہوں
تو آ کے جا بھی چکا ہے، میں انتظار میں ہوں

مکاں ہے قبر، جسے لوگ خود بناتے ہیں
میں اپنے گھر میں ہوں یا میں کسی مزار میں ہوں

درِ فصیل کھلا، یا پہاڑ سر سے ہٹا
میں اب گری ہوئی گلیوں کے مرگ زار میں ہوں

بس اتنا ہوش ہے مجھ کو اجنبی ہیں سب
رکا ہوا ہوں سفر میں، کسی دیار میں ہوں

میں ہوں بھی اور نہیں بھی، عجیب بات ہے یہ
یہ کیسا جبر ہے میں جس کے اختیار میں ہوں

منیر دیکھ شجر، چاند اور دیواریں
ہوا خزاں کی ہے سر پر، شب بہار میں ہوں

وبالوں میں رہے

کیسی کیسی بے ثمر یادوں کے ہالوں میں رہے
ہم بھی اتنی زندگی کیسے وبالوں میں رہے

اک نظر بندی کا عالم تھی نگر کی زندگی
قد میں رہتے تھے جب تک شہر والوں میں رہے

ہم اگر ہوتے تو ملتے تجھ سے بھی جانِ جہاں
خواب تھے، ناپید دنیا کے ملالوں میں رہے

وہ چمکنا برق کا دشت و درو دیوار پر
سار ے منظر ایک پل س کے اجالوں میں رہے

کیا تھیں وہ باتیں جو کہنا چاہتے تھے وقتِ مرگ
آخری دم یار اپنے ک خیالوں میں رہے

دور تک مسکن تھے بن اُن کی صداؤں کے منیر
دیر تک ان ناریوں کے غم شوالوں میں رہے

کہیں ہوا ہی نہ ہو

سفر میں ہے جو ازل سے یہ وہ بلا ہی نہ ہو
کواڑ کھول کے دیکھو کہیں ہوا ہی نہ ہو

نگاہِ آئینہ معلوم، عکس نامعلوم
دکھائی دیتا ہے جو اصل میں چھپا ہی نہ ہو

زمیں کے گرد بھی پانی، زمیں کی تہ میں بھی
یہ شہر جم کے کھڑا ہے جو تیرتا ہی نہ ہو

نہ جا کہ اس سے پرے دشت مرگ ہو شاید
پلٹنا چاہیں وہاں سے تو راستہ ہی نہ ہو

میں اس خیال سے جاتا نہیں وطن کی طرف
کہ مجھ کو دیکھ کے اُس بت کا جی برا ہی نہ ہو

کٹی ہے جس کے خیالوں میں عمر اپنی منیر
مزا تو جب ہے کہ اُس شوخ کو پتا ہیں نہ ہو

یہ اُن کا اور میرا ساتھ کیا ہے

یہ آنکھ کیوں ہے یہ ہاتھ کیا ہے
یہ دن کیا چیز رات کیا ہے

فراقَ خورشید و ماہ کیوں ہے
یہ اُن کا اور میرا ساتھ کیا ہے

گماں ہے کیا اس صنم کدے پر
خیالِ مرگ و حیات کیا ہے

فغاں ہے کس کے لیے دلوں میں
خروشِ دریائے ذات کیا ہے

فلک ہے کیوں قید مستقل میں
زمیں پہ حرفِ نجات کیوں ہے

ہے کون کس کے لیے پریشان
پتہ تو دے اصل بات کیا ہے

ہے لمس کیوں رائیگاں ہمیشہ
فنا میں خوفِ ثبات کیا ہے

منیر اس شہرِ غم زدہ پر
ترا یہ سحرِ نشاط کیا ہے

اک مسافت

اک مسافت پاؤں شل کرتی ہوئی سی خواب میں
اک سفر گہرا مسلسل زردی مہتاب میں

تیز ہے بوئے شگوفہ ہائے مرگِ ناگہاں
گھر گئی خاک زمیں جیسے حصارِ آب میں

حاصل جہد مسلسل، مستقبل آزردگی
کام کرتا ہوں ہوا میں جستجو نایاب میں

تنگ کرتی ہے مکان میں خواہشِ سیر بسیط
ہے اثر دائم فلک کا صحن کی محراب میں

اے منیر اب اس قدر خاموشیاں، یہ کیا ہوا
یہ صفت آئی کہاں سے پارہ سیماب میں

سن بستیوں کا حال

سن بستیوں کا حال جو حد سے گزر گئیں
اُن امتوں کا ذکر جو راستوں میں مر گئیں

کر یاد اُن دنوں کو کہ آباد تھیں یہاں
گلیاں جو خاک و خون کی دہشت سے بھر گئیں

صر صر کی زد میں آئے ہوئے بام و در کو دیکھ
کیسی ہوائیں کیسا نگر سرد کر گئیں

کیا باب تھے یہاں جو صدا سے نہیں کھلے
کیسی دعائیں تھیں جو یہاں بے اثر گئیں

تنہا اجاڑ برجوں میں پھرتا ہے تو منیر
وہ زر فشانیاں ترے رخ کی کدھر گئیں

میں نے دیکھا

چمن میں رنگِ بہار اترا تو میں نے دیکھا
نظر سے دل کا غبار اترا تو میں نے دیکھا


میں نیم شب آسماں کی وسعت کو دیکھتا تھا
زمیں پہ وہ حسن زار اترا تو میں نے دیکھا


گلی کے باہر تمام منظر بدل گئے تھے
جو سایہ کوئے یار سے اترا تو میں نے دیکھا


خمارِ مے میں وہ چہرہ کچھ اور لگ رہا تھا
دمِ سحر جب خمار اترا تو میں نے دیکھا


اک اور دریا کا سامنا تھا منیر مجھ کو
میں ایک دریا کے پار اترا تو میں نے دیکھا

Hamaisha dair kar deta hon


ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے

ہر سُو دِکھائی دیتے ہیں وہ جلوہ گر مجھے
کیا کیا فریب دیتی ہے میری نظر مجھے

آیا نہ راس نالۂ دل کا اثر مجھے
اب تم ملے تو کچھ نہیں اپنی خبر مجھے

ڈالا ہے بیخودی نے عجب راہ پر مجھے
آنکھیں ہیں اور کچھ نہیں آتا نظر مجھے

کرنا ہے آج حضرتِ ناصح کا سامنا
مل جائے دو گھڑی کو تمہاری نظر مجھے

یکساں ہے حُسن و عشق کی سرمستیوں کا رنگ
اُن کی خبر نہیں ہے نہ اپنی خبر مجھے

میں دُور ہوں تو روحِ سخن مجھ سے کس لیے
تم پاس ہو تو کیوں نہیں آتا نظر مجھے

دل لے کے میرا دیتے ہو داغِؔ جگر مجھے
یہ بات بھولنے کی نہیں عمر بھر مجھے

بہت بے درد ہوں نا میں؟

بہت بے درد ہوں نا میں؟
ستاتا ہوں بہت تُم کو
رُلاتا ہوں بہت تُم کو
کہ تُم کو چھوڑ کر تنہا
خزاں لمحوں کی بانہوں میں
بہت ہی دُور سوچوں سے
یہاں پردیس آیا ہوں
مگر میں سوچتا ہوں کہ
سبھی ساون، سبھی بھادوں
کٹے جو میرے بن جاناں
وہ سب کیسے لوٹاؤں گا
کہ میں اس ہجر کی قیمت
بھلا کیسے چُکاؤں گا
کہوں گا کیا، کروں گا کیا؟
مجھے اتنا پتا دے دو؟
چلو ایسا کرو جاناں
مجھے کوئی سزا دے دو
کہ جب سونے کو من چاہے
اور ان آنکھوں کو مُوندوں میں
میری پلکوں کی گھونگٹ اُڑ کر
تُم رُوبرو آنا
میری آنکھوں میں بس جانا
ذرا بھی دُور اپنی یاد سے ہونے نہیں دینا
مجھے سونے نہیں دینا

ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے


ہم جو ٹوٹے تو اس طرح ٹوٹے
جس ہاتھوں سے گر کے پتھر پہ
کوئی شفاف آئینہ ٹوٹے

جیسے پلکوں سے ٹوٹتا آنسو
جیسے سینے میں اک گُماں ٹوٹے

جیسے امید کی نازک ڈالی
جیسے آنکھوں میں خواب کی ڈوری
وقتِ طویل میں الجھ جائے
جیسے پیروں تلے سے زمیں نکلے
جیسے سر پہ آسماں ٹوٹے

جیسے ایک شاخ پہ بھروسہ کیا
اس پہ جتنے تھے آشیاں، ٹوٹے
جیسے ؤحشت سے ہوش آ جائے
جیسے تا دیر میں دھیاں ٹوٹے

کس نے دیکھا تھا ٹوٹنا اپنا
ہم جو ٹوٹے تو رائیگاں ٹوٹے

شراکت

ساون کے موسم میں
میرے اندر کا دکھ
مچل کر
میرے آنکھوں کے باہر آیا
اور ساون کے موسم میں
شریک ہوگیا

Sunday, February 24, 2013

ba'dua

محفل لگی تھی بد دعاؤں کی، ہم نے بھی دل سے کہا
اُسے عشق ھو.اُسے عشق ھو,اُسے عشق ھو

Saturday, February 23, 2013

Ishq

ہائے قیامت تک جائے گا کمبخت
آبِ حیات پی رکھا ہے عشق نے

Friday, February 22, 2013

chalo aisa karty han

چلو نہ ایسا کرتے ہیں
میں بوند بن کے تیرے
رُخِ انمول پہ گرتا ھوں
تُو ہاتھ سے مجھے
رُخسار پر فنا کر دے

Thursday, February 14, 2013

dil lagi


zakhmon ki gehrai


ﺍﺏ ﮐﮯ ﻭﮦ ﺭُﺕ ﮬﮯ ﮐﮧ ﮨﺮ ﺗﺎﺯﮦ ﻗﯿﺎﻣﺖ ﮐﺎﻋﺬﺍﺏ
ﺍﭘﻨﮯ ﺟﺎﮔﺘﮯ ﺯﺧﻤﻮﮞ ﮐﯽ ﮔﮩﺮﺍﺋﯽ ﮐﮯ ﻧﺎﻡ !!!

roshni ka faisla


Tuesday, February 12, 2013

U R The Song My Heart Sing

Times that we're together
They fill my heart with song
Knowing that forever
Our love is always strong

Within the heart that's beating
In love that we do share
With peace that is unending
In happiness we wear

To me you are the essence
Of beauty I can see
With every note a love song
That means so much to me

So hold me close my darling
Lets hear the music play
This orchestra unending
Each moment of our day

Muhabbat main khasara


Masoom sa bacha


Gareeb ka dil


talash


Khawab


Thursday, February 7, 2013

Baba Fareed


اگر محبت یہی ہے جاناں

لباس تن سے اتار دینا
کسی کو بانہوں کے ہار دینا
پھر اس کے جذبوں کو مار دینا
اگر محبت یہی ہے جاناں
تو معاف کرنا
مجھے نہیں ہے

گناہ کرنے کا سوچ لینا
حسین پریاں دبوچ لینا
پھر ان کی آنکھیں ہی نوچ لینا
اگر محبت یہی ہے جاناں
تو معاف کرنا
مجھے نہیں ہے

کسی کو لفظوں کے جال دینا
کسی کو جذبوں کی ڈھال دینا
پھر اس کی عزت اچھال دینا
اگر محبت یہی ہے جاناں
تو معاف کرنا
مجھے نہیں ہے

اندھیر نگری میں چلتے جانا
حسین کلیاں مسل دینا
اور اپنی فطرت پہ مسکرانا
اگر محبت یہی ہے جاناں
تو معاف کرنا
مجھے نہیں ہے....!!

Shayari


شاعری بھی عجیب دھوکہ ہے
اس کو مصرعہ کہا جو سوچا ہے
پھر بھی الفاظ میں بناوٹ ہے
صِدق جذبات میں ملاوٹ ہے
دِل کا سارا غُبار لکھ کر بھی
اُن کو دِلدار، یار لکھ کر بھی
سوچتی ہوں نہ کوئی پہنچانے
دِل کا اِک راز کوئی نہ جانے
میں نے لفظوں کا کھیل کھیلا ہے
ہجر کا دکھ اکیلے جھیلا ہے
تپتے صحرا کی راکھ پر چل کر
انکی یادوں میں رات دِن جل کر
خون دل سے سجائے ہیں مصرعے
تب کہیں اُن کو بھائے ہیں مصرعے


قتل چُھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ

قتل چُھپتے تھے کبھی سنگ کی دیوار کے بیچ
اب کو کھلنے لگے مقتل بھرے بازار کـے بیچ

اپنی پوشاک کے چھن جـــانے کـا افسوس نہ کر
سـر ســلامت نہیں رہتے یہاں دستـــــار کے بیچ

سُرخیاں امن کی تلقین میں مصروف رہیں
حرف بــــارود اُگلتے رہ اخبـــــ
ار کے بیچ

جس کی چوٹی پہ بســــایـــا تھـــا قبیلہ میں نے
زلزلے جاگ اُٹھے ہیں اُسی کہســــار کے بیچ

کاش اس خــواب کـو تعبیر کی مُہلت نہ ملے
شعلے اُگتے نظر آئے مجھے گلزار کے بیچ

ڈھلتے سورج کی تمازت نے بکھر کر دیکھــــا
سرکشیدہ میرا ســایہ صفِ اشجــــــــار کے بیچ

رزق، ملبوس، مکان، سانس، مرض،قرض، دُعا
مُنقسم ھو گیا انســــــــان انہی افــــــکار کے بیچ

دیکھے جاتے تھے آنسو میرے جس سے محؔسن
آج ہنستے ھوئے دیکھا اُسے اغیـــــــار کے بیچ