<bgsound loop='infinite' src='http://picosong.com/3MQs.mp3'></bgsound> Rashid's Poetry: March 2013

Saturday, March 30, 2013

وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے

وہ دلاور جو سیاہ شب کے شکاری نکلے
وہ بھی چڑھتے ھوئے سورج کے پُجاری نکلے

سب کے ہونٹوں پہ میرے بعد ہیں باتیں میری
میرے دشمن میرے لفظوں کے بھکاری نکلے

اک جنازہ اُٹھا مقتل سے اک شان کے ساتھ
جیسے سج کر کسی فاتح کی سواری نکلے

بہتے اشکوں سے شعلوں کی سبیلیں پھوٹیں
چُبتے زخموں سے فنِ نقش و نگاری نکلے

ہم کو ہر دور کی گردش نے سلامی دی ہے
ہم وہ پتھر ہیں جو ہر دور میں بھاری نکلے

عکس کوئی ھو خدوخال تمہارا دیکھوں
بزم کوئی ھو مگر بات تمہاری نکلے

اپنے دشمن سے میں بےوجہ خفا تھامحؔسن
میرے قاتل تو میرے اپنے خواری نکلے



Wo dilawar jo siah shab k shikari nikle
Wo b charhte hue sooraj k poojari nikle

Sab K hontoon pe mere baad hain batein meri
Mere dushman mere lafzon k bhikari nikle

Ik janaza utha maqtal se ajab shaan k sath
Jese saj kar kisi fateh ki sawari nikle

Behte ashkon se shuaoon ki sabelein photen
Chubhte zakhmon se fan-e-naqsh nigari nikle

Hum ko har doar ki gardish ne salami di hai
Hum wo pathar hain jo har doar main bhari nikle

Aks koi ho khad-o-khaal tumhare dekhon
Bazm koi ho magar baat tumhari nikle

Apne Dushman se main be-waja khafa tha
Mere qatil to mere apne hawari nikle

suno iltija hai itni



suno iltija hai itni

jab meri sansain

mera jism choor dain

jab aankhain weeran ho jain

jab main thak jaoon or gir jaoon

jab main tumhein pukaroon

or aawaz na day paoon jab mujhay jana ho

lootna hoo apnay khuda kay pass

aisay lamhay tum aa jana ik

lamhay kay liye hi per dua kay liye

hath uthana meri sard

paishani pay apna hath rakhna

taassuf say sir hilana phir

mairay jinazay ko kandha daina

or apni dunia say door choor aana

bus sirf in chand lamhoon ka sakoon meri

zaindagi pay tumhara ehsan ho ga

kay tumhare hathoon ka

lams kaber main bhi mujh say juda na ho ga

Sunday, March 24, 2013

کبھی یوں بھی تو ہو

کبھی یوں بھی تو ہو
دریا کا ساحل ہو
پورے چاند کی رات ہو
اور تم آؤ

کبھی یوں بھی تو ہو
سونی ہر محفل ہو
کوئی نہ میرے پاس ہو
اور تم آؤ

کبھی یوں بھی تو ہو
یہ بادل ایسا ٹوٹ کہ برسے
میرے دل کی طرح ملنے کو
تمہارا دل بھی ترسے
تم نکلو گھر سے

کبھی یوں بھی تو ہو
تنہائی ہو دل ہو
بوندیں ہوں برسات ہو
اور تم آؤ

کبھی یوں بھی تو ہو
کبھی یوں بھی تو ہو

Wednesday, March 20, 2013

وہ میرے پاس سے گُزرا میرا حال تک نہ پوچھا

کبھی تھک ہار کے سوگئے، کبھی رات بھر نہ سوئے
کبھی ہنس کے غم چھپایا، کبھی مُنہ چُھپا کے روئے

میری داستانِ حسرت وہ سُنا سُنا کے روئے
مجھے آزمانے والے مجھے آزما کے روئے

شبِ غم کی آپ بیتی جو کہی انجُمن میں
کچھ سن کے ہنس پڑے کچھ مُسکرا کے روئے

میں بےوطن مُسافر ھوں میرا نام بےبسی ہے
میرا کوئی نہیں جو مجھے گلے لگا ک روئے

وہ میرے پاس سے گُزرا میرا حال تک نہ پوچھا
میں یہ کیسے مان جاؤں وہ دور جا کے روئے

Saturday, March 16, 2013

بضد رہا جو بغاوت پہ میرا دل تو پھر

اب اِس لڑائی میں ممکن ہے سر چلا جائے
سو جس کو جان ہو پیاری وہ گھر چلا جائے

یہ قاعدہ بھی پرندوں سے ہم نے سیکھا ہے
تلاش ِ رزق میں وقت ِ سحر چلا جائے

عجب جنوں میں گھر سے نکل پڑا تھا میں
اور اب یہ سوچ رہا ہوں کدھر چلا جائے

بچھڑنے والے اکٹھے نہ دل کو یاد آئیں
شکستہ پل پہ قدم توڑ کر چلا جائے

ہماری بحث سمٹتی نظر نہیں آتی
مرے خیال میں فی الحال گھر چلا جائے

بضد رہا جو بغاوت پہ میرا دل تو پھر
اسے کہوں گا بدن چھوڑ کر چلا جائے

phool


aitbaar


Friday, March 15, 2013

Piyar ka pehla khat


لو اپنا جہاں اے دنیا والو!

لو اپنا جہاں اے دنیا والو!
ہم تو یہ دنیا چھوڑ چلے
جو رشتے ناطے جوڑے تھے
وہ رشتے ناطے توڑ چلے
کُچھ سکھ کے سپنے دیکھ چلے
کچھ دکھ کے لمحے جھیل چلے
تقدیر کی اندھی گردشوں سے
جو کھیل کھلائے، کھیل چلے
ہر چیز تُمہاری لوٹا دی
ہم لے کر کُچھ نہیں ساتھ چلے
پھر دوش نہ دینا اے لوگو!
ہم دیکھ لو خالی ہاتھ چلے
یہ راہ اکیلی کٹتی ہے
یہاں ساتھ نہ کوئی یار چلے
اُس پار نہ جانے کیا ھو گا
اِس پار تو سب کُچھ ہار چلے

تو جاہل ھو

بہت سی ڈگریاں لے کر
ہُنر پہ دسترس پـــا کر
نصابِ چاہتِ دل کے
چمکتے الفاظ آنکھوں سے
اگر پڑھنے سے قاصر ھو
تو جاہل ھو

bas ik ma'afi


Tuesday, March 12, 2013

سن لیا ہم نے فیصلہ----- تیرا

سن لیا ہم نے فیصلہ----- تیرا
اور سن کر' اداس ہو بیٹھے
ذہن چپ چاپ آنکھ خالی ہے
جیسے ہم کائنات کھو بیٹھے

دھندلے دھندلے سےمنظروں میں مگر
چھیڑتی ہیں تجلیاں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ تیری
بھولی بسری ہوئی رتوں سے ادھر
یاد آئیں۔۔۔ ۔تسلیاں۔۔۔ ۔۔۔ ۔تیری

دل یہ کہتا ہے۔۔۔ ۔۔ ضبط لازم ہے
ہجر کے دن کی دھوپ ڈھلنے تک
اعترافِ شکست کیا کرنا۔۔۔ ۔۔۔ !
فیصلے کی گھڑی بدلنے تک

دل یہ کہتا ہے ۔۔۔ ۔۔حوصلہ رکھنا
سنگ رستے سے ہٹ بھی سکتے ہیں
اس سے پہلے کہ آنکھ بجھ جائے!
جانے والے پلٹ بھی سکتے ہیں!


اب چراغاں کریں ہم اشکوں سے
مناظر بجھے بجھے۔۔۔ ۔۔۔ دیکھیں؟
اک طرف تو ہے' اک طرف دل ہے
دل کی مانیں۔۔۔ ۔کہ اب تجھے دیکھیں

خود سے بھی کشمکش سی جاری ہے
راہ میں تیرا ۔۔غم بھی حائل ہے
چاک در چاک ہے قبائے حواس
بے رفو سوچ' روح گھائل ہے

تجھ کو پایا تو چاک سی لیں گے
غم بھی امرت سمجھ کے پی لیں گے
ورنہ یوں ہے کہ دامنِ دل میں
چند سانسیں ہیں' گن کے جی لیں گے

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا

جب بہار آئی تو صحرا کی طرف چل نکلا
صحنِ گُل چھوڑ گیا دل میرا پاگل نکلا

جب اُسے ڈھونڈھنے نکلے تو نشاں تک نہ ملا
دل میں موجود رہا وہ آنکھ سے جو اوجھل نکلا

اک مُلاقات تھی جو دل کو سدا یاد رہی
ہم جسے عمر سمجھتے تھے وہ اک پل نکلا

وہ جو افسانہ غم سُنا کے ہنسا کرتے تھے
اتنا روئے ہیں کہ سب آنکھ کا کاجل نکلا

ہم سکوں ڈھونڈھنے نکلے تو پریشان رہے
شہر تو شہر ہے جنگل بھی نہ جنگل نکلا

کون ایوؔب پریشان نہیں تاریکی میں
چاند افلاک پہ، دل سینے میں بےکل نکلا

کیوں کسی کہ دُکھ درد سُناؤں اپنے

کیوں کسی کہ دُکھ درد سُناؤں اپنے
اپنی آنکھوں سے بھی میں زخم چُھپاؤں اپنے

میں تو قائم ھوں تیرے غم کی بدولت ورنہ
یوں تو بکھر جاؤں کہ خود ہاتھ نہ آؤں اپنے

شعر لوگوں کے بُہت یاد ہیں اوروں کے لیے
تُو ملے تو میں تجھے شعر سُناؤں اپنے

سوچتا ھوں کہ بُجھا دوں میں یہ کمرے کا دیا
اپنے سائے کو بھی کیوں ساتھ جگاؤں اپنے

اُس کی تلوار نے وہ چال چلی ہے انؔور
پاؤں کٹتے ہیں اگر ہاتھ بچاؤں اپنے

پچھتا رہا ھوں پاؤں کے اب خار کھینچ کر

ہموار کھینچ کر، کبھی دُشوار کھینچ کر
تنگ آچکا ھوں سانس لگاتار کھینچ کـر

میدان میں اگر نہ آتا میں تلوار کھینچ کر

لے جاتے لوگ مصر کے بازار کھینچ کر

خاطر میں کچھ نہ لائے گا یہ سائلِ عشق ہے

تم کیوں روکتے ھو ریت کی دیوار کھینچ کر

اُکتا چُکا یہ دل بھی، نظر بھی، میں آپ بھی

مُدّت سے تیری حســرتِ دیدار کھینچ کـــــر

ہرگز یہ ایسے ماننے والی نہیں میاںؔ

دُنیا کو دو لگا سرِ بــازار کھینچ کـــر

جــاتا رہا وہ کیف نہـــاں جو چُبھن میں تھا

پچھتا رہا ھوں پاؤں کے اب خار کھینچ کر

Friday, March 8, 2013

دوسرے موسم کے پھول

بادباں کب کھولتا ہوں ، پار کب جاتا ہوں میں
روز رستے کی طرح ، دریا سے لوٹ آتا ہوں میں

صبحِ دم میں کھولتا ہوں ، رسّی اپنے پاؤں کی
دن ڈھلے خود کو ، کہیں سے ہانک کر لاتا ہوں میں

اپنی جانب سے بھی دیتا ہوں ، کچوکے جسم کو
اس کی جانب سے بھی ، اپنے زخم سہلاتا ہوں میں

ایک بچّے کی طرح ، خود کو بٹھا کر سامنے
خوب خود کو کوستا ہوں ، خوب سمجھاتا ہوں میں

خشک پتّوں کی طرح ہے ، قوّتِ گویائی بھی
بات کوئی بھی نہیں ، اور بولتا جاتا ہوں میں

یہ وہی تنہائی ہے ، جس سے بہل جاتا تھا دِل
یہ وہی تنہائی ہے ، اب جس سے گھبراتا ہوں میں

عشق میں مانع ہے ، غالب کی طرفداری مجھے
رعب جب چلتا نہیں تو ، پاؤں پڑ جاتا ہوں میں

میرے ہاتھ آتے ہیں تابش ، دوسرے موسم کے پھول
ایک موسم میں تو ، ٹہنی تک پہنچ پاتا ہوں میں

Wednesday, March 6, 2013

پھر اس کو پانے کا شوق

بہار کیا، اب خزاں بھی مجھ کو گلے لگائے تو کچھ نہ پائے
میں برگِ صحرا ہوں ، یوں بھی مجھ کو ہَوا اُڑائے تو کچھ نہ پائے

میں پستیوں میں پڑا ہوا ہوں، زمیں کے ملبوس میں جڑا ہوں
مثالِ نقشِ قدم پڑا ہوں، کوئی مٹائے، توکچھ نہ پائے

تمام رسمیں ہی توڑ دی ہیں، کہ میں نے آنکھیں ہی پھوڑ دی ہیں
زمانہ اب مجھ کو آئینہ بھی، مرا دکھائے تو کچھ نہ پائے

عجیب خواہش ہے میرے دل میں، کبھی تو میری صدا کو سن کر
نظر جھکائے تو خوف کھائے، نظر اُٹھائے تو کچھ نہ پائے

میں اپنی بے مائیگی چھپا کر، کواڑ اپنے کھلے رکھوں گا
کہ میرے گھر میں اداس موسم کی شام آئے تو کچھ نہ پائے

تو آشنا ہے نہ اجنبی ہے، ترا مرا پیار سرسری ہے
مگر یہ کیا رسمِ دوستی ہے، تو روٹھ جائے تو کچھ نہ پائے؟

اُسے گنوا کر پھر اس کو پانے کا شوق دل میں تو یوں ہے محسن
کہ جیسے پانی پہ دائرہ سا، کوئی بنائے تو کچھ نہ پائے

Monday, March 4, 2013

یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں

قتیل شفائی

یارو کہاں تک محبت نبھاؤں میں
دو مجھ کو بددعا کہ اسے بھول جاؤں میں

دل تو جلاگیا ہے وہ شعلہ سا آدمی
اب کس کو چھو کے اپنا ہاتھ جلاؤں میں

سنتا ہوں اب کسی سے وفا کررہا ہے وہ
اے زندگی خوشی سے کہیں مر نہ جاؤں میں

اک شب بھی وصل کی نہ مرا ساتھ دے سکی
عہد فراق آکہ تجھے آزماؤں میں

بدنام میرے قتل سے تنہا تو ہی نہ ہو
لا اپنی مہر بھی سر محضر لگاؤں میں

اُس جیسا نام رکھ کے اگر آئے موت بھی
ہنس کر اُسے قتیل گلے لگاؤں میں

Sunday, March 3, 2013

گردشوں کے ہیں مارے ھوئے

گردشوں کے ہیں مارے ھوئے نہ دشمنوں کے ستائے ھوئے ہیں
جتنے بھی زخم ہیں میرے دل پر دوستوں کے لگائے ھـوئے ہیں

جب سے دیکھا تیرا قدّ وقامت، دل پہ ٹوٹی ھوئی ہے قیامت
ہر بلا سے رہے تو سلامت دن جوانی کے آئے ھـوئے ہیں

اور دے مجھ کو دے اور ساقی، ہوش رہتا ہے تھوڑا سا باقی
آج تلخی بھی ہے انتہــا کـی آج وہ بھی پـــرائے ھـــوئے ہیں

کل تھے آباد تھے پہلو میں میرے، اب ہیں غیروں کی محفل میں ڈھیرے
میری محفل میں کــــر کے اندھیرے، اپنی محفل سجـــــائے ھـــوئے ہیں

اپنے ہــاتھوں سے خنجر چلا کـر، کتنـــا معصوم چہرہ بنـا کر
اپنے کاندھوں پہ اب میرے قاتل میری میّت اُٹھائے ھوئے ہیں

مہوشوں کو وفا سے کیا مطلب، ان بُتوں کو خُدا سے کیا مطلب
ان کی معصوم نظــروں نے نــاصؔر لوگ پاگل بنائے ھوئے ہیں