Sunday, May 19, 2013
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﻋﺠﺐ ﺗﻘﺎﺿﮯ ﮨﯿﮟ ﭼﺎﮨﺘﻮﮞ ﮐﮯ
ﺑﮍﯼ ﮐﭩﮭﻦ ﯾﮧ ﻣﺴﺎﻓﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑِﭽﮫ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍُﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
…ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﺠﺎ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﮟ ﺩﻻﺅﮞ
ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﺍُﺳﮯ ﺑﮭﻼﺅﮞ ﺗﻮ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍُﺳﮯ ﺧﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺷﺎﯾﺪ
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺑﮍﯼ ﮐﭩﮭﻦ ﯾﮧ ﻣﺴﺎﻓﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
ﻣﯿﮟ ﺟﺲ ﮐﯽ ﺭﺍﮨﻮﮞ ﻣﯿﮟ ﺑِﭽﮫ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍُﺳﯽ ﮐﻮ ﻣﺠﮫ ﺳﮯ ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﮨﯿﮟ
…ﺷﮑﺎﯾﺘﯿﮟ ﺳﺐ ﺑﺠﺎ ﮨﯿﮟ ﻟﯿﮑﻦ
ﻣﯿﮟ ﮐﯿﺴﮯ ﺍُﺱ ﮐﻮ ﯾﻘﯿﮟ ﺩﻻﺅﮞ
ﺟﻮ ﻣﺠﮫ ﮐﻮ ﺟﺎﮞ ﺳﮯ ﻋﺰﯾﺰ ﺗﺮ ﮨﮯ
ﺍُﺳﮯ ﺑﮭﻼﺅﮞ ﺗﻮ ﻣﺮ ﻧﮧ ﺟﺎﺅﮞ
ﻣﯿﮟ ﺧﺎﻣﻮﺷﯽ ﮐﯽ ﺍﻧﺘﮩﺎ ﻣﯿﮟ
ﮐﮩﺎﮞ ﮐﮩﺎﮞ ﺳﮯ ﮔﺰﺭ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
ﺍُﺳﮯ ﺧﺒﺮ ﺑﮭﯽ ﻧﮩﯿﮟ ﮨﮯ ﺷﺎﯾﺪ
ﻣﯿﮟ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺩﮬﯿﺮﮮ ﺑﮑﮭﺮ ﮔﯿﺎ ﮨﻮﮞ
غم ذات gham e zaat
چھوٹے چھوٹے سے مفادات لئے پھرتے ہیں
دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسہءِ خیرات لئے پھرتے ہیں
شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا
کچھ سلگتے ہوئے نغمات لئے پھرتے ہیں
دنیا میں ترے غم کو سمونے والے
اپنے دل پر کئی صدمات لئے پھرتے ہیں
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لئے پھرتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ غمِ دہر سے فرصت ہی نہیں
ایک وہ ہیں کہ غم ذات لئے پھرتے ہیں
دربدر خود کو جو دن رات لئے پھرتے ہیں
اپنی مجروح اناؤں کو دلاسے دے کر
ہاتھ میں کاسہءِ خیرات لئے پھرتے ہیں
شہر میں ہم نے سنا ہے کہ ترے شعلہ نوا
کچھ سلگتے ہوئے نغمات لئے پھرتے ہیں
دنیا میں ترے غم کو سمونے والے
اپنے دل پر کئی صدمات لئے پھرتے ہیں
مختلف اپنی کہانی ہے زمانے بھر سے
منفرد ہم غم حالات لئے پھرتے ہیں
ایک ہم ہیں کہ غمِ دہر سے فرصت ہی نہیں
ایک وہ ہیں کہ غم ذات لئے پھرتے ہیں
مجھے یقین ہے
مجھے یقین ہے
یہ جو فاصلےتم نے بڑھا لئے ہیں
پشیمانی کا سبب بنے گے
جب کبھی
احساس کی شدت بڑھے گی
تو تیری روح تلملا ئے گی
چین و سکون کھو جائے گا
میں ہی میں جا بجا تمہیں نظر آوں گا
ہجر کا تاویل موسم
تیمہیں بے رنگ کر دے گا
بے حس ' بے جا ں ' خود سی ٹکراؤ گی
بے سمت آتی ہوئی لہرون کی مانند
مجھے یقین ہے کے
تمہیں رابطے بحال کرنا ہونگے
انا کے بت ٹوٹ جائیں گے
تمہارا آئینہ تمہیں طعنے دے گا
تمہاری تنہایی میرے حق مے ہو گی
زرہ زرہ تمہیں میری طرف انے کو مجبور کرے گا
سنو!!
بے سبب کیوں
یہ حالات واقع ہوں
آؤ رشتوں کی کسوٹی پہ کھرا اترے
مجھے یقین ہے کے
گر جو مل جائیں ہم تو
حالات ساز گار ہونگے
پیار ہی پیار برسے گا آسمان سے
پھول ہی پھول ہوں گے تیرے دامن میں
دن کٹے گا تیرے پہلو میں
تو رات بانہوں میں
میری ما نو تو
چھوڑ دو ضد
یہ جو فاصلےتم نے بڑھا لئے ہیں
پشیمانی کا سبب بنے گے
جب کبھی
احساس کی شدت بڑھے گی
تو تیری روح تلملا ئے گی
چین و سکون کھو جائے گا
میں ہی میں جا بجا تمہیں نظر آوں گا
ہجر کا تاویل موسم
تیمہیں بے رنگ کر دے گا
بے حس ' بے جا ں ' خود سی ٹکراؤ گی
بے سمت آتی ہوئی لہرون کی مانند
مجھے یقین ہے کے
تمہیں رابطے بحال کرنا ہونگے
انا کے بت ٹوٹ جائیں گے
تمہارا آئینہ تمہیں طعنے دے گا
تمہاری تنہایی میرے حق مے ہو گی
زرہ زرہ تمہیں میری طرف انے کو مجبور کرے گا
سنو!!
بے سبب کیوں
یہ حالات واقع ہوں
آؤ رشتوں کی کسوٹی پہ کھرا اترے
مجھے یقین ہے کے
گر جو مل جائیں ہم تو
حالات ساز گار ہونگے
پیار ہی پیار برسے گا آسمان سے
پھول ہی پھول ہوں گے تیرے دامن میں
دن کٹے گا تیرے پہلو میں
تو رات بانہوں میں
میری ما نو تو
چھوڑ دو ضد
قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کےستوں پر
حالات کے قدموں پہ قلندر نہیں گرتا
ٹوٹے بھی جو تارا تو زمیں پر نہیں گرتا,
گرتے ہیں سمندر میں بڑے شوق سے دریا
لیکن کسی دریا میں سمندر نہیں گرتا,
سمجھو وہاں پھل دار شجر کوئی نہیں ہے
وہ صحن کہ جِس میں کوئی پتھّر نہیں گرتا,
اِتنا تو ہوا فائدہ بارش کی کمی سے
اِس شہر میں اب کوئی پھسل کر نہیں گرتا,
انعام کے لالچ میں لکھے مدح کسی کی
اتنا تو کبھی کوئی سخنور نہیں گرتا,
حیراں ہے کوئی روز سے ٹھہراہوا پانی
تالاب میں اب کیوں کوئی کنکر نہیں گرتا,
اُس بندہٴ خوددار پہ نبیوں کا ہےسایا
جو بھوک میں بھی لقمہٴ تر پر نہیں گرتا,
کرنا ہے جو سر معرکہِ زیست تو سُن لے
بے بازوئے حیدر، درِ خیبر نہیں گرتا,
قائم ہے قتیل اب یہ مرے سر کےستوں پر
بھونچال بھی آئے تو مرا گھر نہیں گرتا.
Subscribe to:
Posts (Atom)